کبھی کبھی زندگی کا سبق یہی ہوتا ہے کہ جو رُخ موڑ لے، اُس کے لیے راستوں کو تکتے رہنا بھی بے معنی ہوجاتا ہے۔ وقت گزرتا ہے، اور جذبات کی دھوپ چھاؤں کی طرح وہ راستے بھی مٹ جاتے ہیں جو کبھی کِسی کے انتظار میں کھُلے تھے۔ شاید یہی فطرت کا اصول ہے — جہاں اُمید ختم ہو، وہاں راہیں بھی