زمیندارنی والدہ، جھگیوں میں رہنے والے ملازم کے کالے لوڑے کی رکھیل تھی۔
بیٹا، جو کہ والدہ کی موٹی بُنڈ پر عاشق تھا، دونوں کی چدائی دیکھ کر لن ہلانے کا عادی ہو چکا تھا۔
"حرامزادے، صاحب کے سامنے مجھے انگلی نہ دیا کر،"
والدہ نے نوکر کو ڈانٹتے ہوئے کالے لوڑے کے لیئے بُنڈ کھول دی
ماں بیٹے کے ساتھ سیٹ تھی لیکن ہمبستری کے لیئے موقع کی تلاش میں تھے۔
خیر ماں،ایک دن ترکیب لگا کر بیٹے کے ساتھ اکیلی گھر رہ گئی۔
بیٹے نے ماں کی شلوار کچن میں اتاری، اور ننگی کو اٹھا کر بستر پر لیٹ گیا۔
کچھ دیر میں ماں بیٹے کا جنسی تعلق استوار ہو گیا۔
زینب کو نئے لیپ ٹاپ کے لیئے پیسے چاہیے تھے۔ سب بھائی بہن نے مذاق بنایا، بابا نہیں دیں گیں۔
ہفتے کی رات کو تھکے ہوئے والد کے کمرے میں گھسی، خوب لاڈ سے پیسے مانگے اور گھنٹے بعد پیسے لے کر باہر نکلے۔
والد تو بیٹی کو منع کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔
جب سے بیٹے نے ماں کے ساتھ جسمانی تعلق بنایا، ماں بیٹے کے انداز سے ہی سمجھ جاتی تھی۔
ماں کو اندازہ تھا کہ بیٹے کی نظریں اُس کی بھاری کمر اور کولہوں پر پوست ہے، ماں نے کمرے کی راہ لی۔
بیٹے نے پیچھے سے آ کر کچھ دیر پیار کیا اور دونوں جماع کے عمل میں مصروف ہو گئے۔
چھ مہینے کا کرایہ زیر التوا تھا۔ مالک مکان بارہا امی کی گوری چمڑی کی طرف اشارہ کر چکا تھا۔
آخر ایک دن والدہ نے اُسے اندر بلا کر ٹی وی لاؤنج کو کنڈی لگا لی۔
لاک سے دیکھا تھا، دونوں نے لیٹ کر اپنی اپنی شلوار نیچے کر رہی تھی اور مالک مکان جلدی جلدی والدہ کی گوری پھدی مسل رہا تھا۔
انسیسٹ کا نقطہ آغاز یہ ہے۔ جس جوان بیٹے نے، والدہ کو نہاتے ہوئے، اپنے برہنہ بھاری بھرکم جسم کی مکمل نمائش کرتے ہوئے دیکھا ہو، اور لمحوں میں اپنی چار انچ کی لُلی کو ایک آٹھ انچ کے ہتھیار میں تبدیل ہوتا دیکھا ہو، اُس کے لیئے واپس ناممکن ہے
دعوت پر بہن کے موٹی گانڈ دیکھ کر بھائی رات بھر سو نہیں سکا۔
اگلے دن بہن کے گھر جا پہنچا۔ بہن گلے لگانے کے انداز سے ہی سمجھ گئی۔
بھائی کو سمجھایا،شادی کے بعد اب پہلے والی بات نہیں رہی۔
بھائی نےکوئی بات نہیں سنی۔اور اگلے لمحےبہن کے گول گول چوتڑ بھائی کے لنڈ کے آگےلگے ہوئے تھے۔
چھوٹی بہن ہاسٹل سے واپس آئی۔ میں قریب گیا تو کہتی ،"بھائی چھوڑو، تم مجھے harass کر رہے ہو"۔
لیکن رات میں خود ہی پاجامے میں ہاتھ ڈال کر لنڈ پکڑا، اور کہتی "بھائی جتنی زور سے چودنا ہے چود لو"
دوست کے گھر گیا تو اُس کی والدہ نے دروازہ کھولا،میں نے کہا میں دوبارہ آ جاؤں گا آنٹی۔
"بیٹا، آپ اندر آ جائیں، وہ سمیع نے جو پیسے لیئے تھے، اُس نے مجھے بتایا، بیٹا وہ پیسے کا کاروبار تو نہیں چلا، لیکن آپ کا قرضہ تو ادا کرنا ہے"
سمیع کی والدہ نے شلوار نیچے کر کےاپنی ٹانگیں اٹھا لیں
دن بھر دونوں بہن بھائی کی خوب لڑائی ہوئی۔ دونوں نے ایک دوسرے کو بہت برا بھلا کہا۔
لیکن رات میں بہن اپنی پھدی پر بھائی کی انگلیاں محسوس کرتے ہی ایک کلی کی طرح سمٹ گئی۔
پورے دن کی چیخ و پکار کی جگہ مدھم سسکیوں نے لے لی تھی۔
بیٹے نے والدہ کا بوسہ لیا اور شلوار میں ہاتھ ڈال کر پھدی سہلا دی۔
ماں کاموں سے فارغ ہوکر شام میں ہی بیٹے کے کمرے میں چلی گئی۔
کمرے میں اندھیرا کر کے دونوں ماں بیٹا لپٹ گئے اور بیٹا رات تک ماں کی پھدی میں لنڈ اُتارتا رہا۔
بیٹے نے ماں کو کچن میں نوکر کے ساتھ اس حالت میں دیکھ لیا۔
ماں پہلے گھبرا گئی، لیکن خاموشی سے کچھ دیر بعد بیٹے کے کمرے میں چلی گئی اور بیٹے کے ہونٹوں کا بوسہ لے لیا۔
بیٹے کی خواہش پر ماں نے بیٹے کو اپنی پھدی کا رس پلایا اور نوکر سے افیئر جاری رکھا۔
امی اپنی وزنی بُنڈ بےشرمی سے مٹکانے کی وجہ سے کافی مشہور تھی جوان لڑکوں میں۔
دوست میرے سامنے عزت کرتا تھا، لیکن پس پردہ امی پر نظر رکھتا تھا۔
اور جیسے ہی امی نے ڈھیل دی، امی کی لینے پہنچ گیا۔
لیکن اُس کے لنڈ کا امی کی گنبد جتنی گانڈ سے کوئی مقابلہ نہیں تھا۔
سٹور روم میں نوکر اپنا لمبا لنڈ نکالے، والدہ کے ساتھ زبردستی کر رہا تھا۔
امی نے منع کرنے کے بجائے کہا، "میرا بندہ باہر بیٹھا ہے، رات نو آواں گی تیرے کواٹر"۔
لیکن نہ ماننے پر والدہ نے جھک کر اپنی گوری بنڈ نوکر کے کالے لوڑے کے آگے کر دی۔
رات کو لیٹ جاب سے واپس آیا۔امی نے روٹی بنائی،کھانا کھاتے امی کے چوتڑ دبا دیئے۔
امی کھانے کے برتن اُٹھا کر،میرے کمرے میں جسم ننگا اور منہ ڈھانپ کر لیٹ گئی۔
میں نے امی کی ٹانگیں ہوا میں اُٹھا کر پھدی مارنا شروع کی۔
رات کے سناٹے میں امی کی موٹی بنڈ کی تھپ تھپ کی آواز بہت واضح تھی
گاؤں جاتے وقت، راستے میں گاڑی روکی۔ تائی امی کو پیشاب کی حاجت لگی۔
لیکن باتھ روم کا دروازہ نہیں تھا۔ تائی امی مجھے ساتھ لے گئی، اور بولی بس دھیان رکھنا ادھر اُدھر.
لیکن تائی امی کے گورے گورے موٹے چوتڑ دیکھ کر منظر قید کیئے بغیر نہ رہ سکا۔